Ali baba or chalees chor Urdu Kahani | Urdu Kids stories 2023 | Latest Urdu Kahani

علی بابا اور چالیس چور


 پرانے وقتوں کے بات ہے کہ افغانستان کے ایک شہر کابل میں ایک لکڑہارا رہتا تھا جس کا نام علی بابا تھا ۔علی بابا بہت غریب تھا مگر بہت ایماندار اور محنتی تھا اور بہت بہادر تھا وہ بڑے سے بڑے خطرے سے اکیلا لڑ جاتا تھا وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کے لاتا اور ان لکڑیوں کو بازار میں بیچ دیتا ان سے ملنے والے پیسوں سے وہ اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ بھرتا۔

علی بابا کا ایک بھائی تھا جو بہت امیر تھا جس کا نام قاسم تھا قاسم امیر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت کنجوس اور لالچی تھا وہ عل بابا کے گھر کے سامنے ہی ایک بڑے گھر میں رہتا تھا ایک دن علی بابا جنگل میں لکڑیاں کاٹنے کے لیے گیا وہ لکڑیاں ابھی کاٹ ہی رہا تھا کہ اسے بہت سے گھوڑوں کی آواز آنے لگی وہ گھوڑوں کی آواز سن کر ایک درخت پر چڑھ گیا اور چھپ کر بیٹھ گیا.

 اتنی دیر میں وہ گھوڑے اس درخت کے پاس ایک گفا کے پاس رک گئے علی بابا نے جب دیکھا تو وہ سب چور تھے ان سب کے پاس ایک ایک تھیلا تھا علی بابا نے چوروںگنتی کی تو پتا چلا وہ چالیس چور ہیں ان کا ایک سردار تھا جو تھوڑے سے اترا اور گفا کے دروازے کے سامنے جا کر ذور سے بولنے لگا "کھل جا سم سم"پھر گفا کا دروازا کھل گیا تو سارے چور باری باری گفا میں جانے لگے علی بابا یہ سب درخت پر بیٹھا دیکھ رہا تھا.

کچھ دیر بعد چالیس چور باہر آئے اور پھر وہی الفاظ بولے تو غار کا دروازہ بند ہوگیا اور پھر وہاں سے چلے گئے تو علی بابا درخت سے نیچے اترے اور  غار کے پاس پہنچ گئے  اور علی بابا بہادری کے ساتھ غار میں آگے چلتا رہا اسے ایک کونے میں تیز روشنی آرہی تھی وہاں پہنچا تو اس نے دیکھا وہاں بہت زیادہ سونا اور موتی جواہرات ہے وہ سونے سے دو تھیلے بھرتا ہے 

اور وہاں سے جلدی جلدی نکل جاتا ہے اور گھر جاکر وہ سونا اپنی بیوی کو دکھاتا ہے تو اس کی بیوی بہت خوش ہوتی ہے علی بابا اپنی بیوی کو سارا واقعہ سنا ہے اور پھر علی بابا کچھ سکے بازار لے جاتا ہے اور وہاں سے کھانے کا سامان اور کپڑے لے آتا ہے علی بابا ایک بڑا گھر بھی بناتا ہے علی بابا کے جب سارے سکے ختم ہو جاتے تو وہ غار میں جاتا اور پھر دو تھیلے سونے کے لے آتا سونا آہستہ آہستہ کم ہو رہا ہے ایسا چوروں کو شک ہونے لگا کاسم کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ علی بابا اتنی جلدی امیر کیسے ہو گیاتو قاسم یہ جاننے کے لیے علی بابا کے پیچھے پیچھے جانے لگا وہ علی بابا کا پیچھا کرتے ہوئے اس غار کے پاس پہنچ گیا 

اس نے  سارا ماجرا سمجھا اور وہ واپس گھر آیا اور اپنے ساتھ دو گھوڑوں کو لے کر غار کے پاس پہنچ گیا اس نے الفاظ بولے کھل جا سم سم تو اس غار کا دروازہ کھل گیا اس نے جب سونا دیکھا تو اس کا لالچ اور بڑھ گیا وہ جلدی جلدی بوریوں میں سونا بھرنے لگا پھر جب اس نے سونا بھر لیا  تو وہ دروازے کے پاس گیا اور پھر الفاظ بولے کھل جا کل کل کھل جا سم تم اسے درست الفاظ بھول گئے پھر وہ بہت گھبرا گیا اور سونے کے پاس بیٹھ گیا کچھ دیر بعد اسے گھوڑوں کے آنے کی آواز سنائی دی.

وہ گھوڑوں کی آواز سن کر بہت ڈر گیا پھر جب چور غار کے پاس آئے تو انہوں نے وہاں گھوڑوں کو کھڑا دیکھا تو وہ ہوشیار ہو گیے انہوں نے غار کا دروازہ کھولا  تو انہوں نے قاسم کو بوریوں میں سونا بھرتے ہوئے دیکھا تو چوروں کے سردار نے کیا تم ہی وہ چور ہو ہو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا تو ان کے سردار نے قاسم کو تلوار سے مار دیا پھر چوروں کے سردار نے کہا مجھے نہیں لگتا یہ چور وہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس چور کو ہمارے آنے جانے کا وقت پتا ہے .

اور وہ پہلے کبھی پکڑ میں نہیں آیا اس بار کیسے پکڑا گیا ضرور وہ کوئی اور ہےاس نے اپنے ایک چور سے کہا جاؤ دیکھو قابل میں کوئی ابھی ابھی امیر ہوا ہے تو وہ چور کابل کی طرف نکل پڑا اس کو پتہ چلا کہ علی بابا جو پہلے بہت غریب تھا وہ ایک دم سے امیر ہو گیا ہے وہ چور علی بابا کا پیچھا کرتے کرتے اس کے گھر تک آ گیا اس وقت رات ہوچکی تھی اس لئے کچھ بھی صاف نظر نہیں آرہا تھا اس لیے اس نے علی بابا کے گھر کے باہر ایک نشان لگا دیا.

 جس سے پتہ چل سکے کہ علی بابا کا گھر کونسا ہے پھر وہ چور وہاں سے چلا جاتا ہے اور اپنے سردار کو ساری بات بتاتا ہے  سردار نے کہا ہم تیرے کے تاجر بن کے جائیں گے تم سب تیل کے ڈبوں میں چھپ جانا پھر میں علی بابا کے گھر  رات گزارنے کے لئے جاؤں گا پھر میں رات کو آؤں گا اور تم سب باہر آجانا پھر ہم سب کو مار ڈالیں گے  تو پھر وہ چور تیل والا بن کے علی بابا کے گھر جاتا ہے.

اور کہتا ہے کہ میں بہت دور سے آیا ہوں میں تیل کا تاجر ہوں کیا میں آپ کے ہاں رات گزار سکتا ہوں تو علی بابا نے کہا بالکل ضرور ہمیں آپ کی مدد کرکے خوشی ہوگی پھر سردار سارے ڈبوں کو علی بابا کے گھر میں رکھوا لیتا ہے چور علی بابا کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا تو قاسم اور علی بابا کی بیویاں ان ڈبوں کے پاس آئی جب انہوں نے ڈبوں کو گنا تو وہ چالیس تھے.

 اور انہوں نے دروازے پر بنے نشان کو دیکھاتو انہوں کو شک ہوا کہ یہ وہ چالیس چور ہیں تو انہوں نے ڈبوں کے پاس جا کر آواز دی تو اندر سے آواز آئی کیا ہم باہر آ جائیں تو انہوں نے ایک ڈبےمیں تیل گرم کیا اور ڈبوں میں بیٹھے چوروں پر ڈال دیااورڈبوں میں بیٹھے چور جل گئے اور ڈبوں میں ہی مر گئے جب رات بہت زیادہ ہوئی تو سب سوئے ہوئے تھے تو چوروں کا سردار اٹھا اور اس نے کہا چلو اب باہر آ جاؤ تو اسے کوئی آواز نہ آئی اس نے پھر سے کہا کیا سو گئے ہو چلو اب باہر آ جاؤ تو پھر کوئی جواب نہ آیا

 اس نے جب ڈبے کا ڈھکنا کھولا تو اس نے دیکھا کہ سب کے سب چور مر گئے ہیںتو وہ بہت گھبرا گیااور موقع پا کر وہاں سے بھاگ گیا علی بابا اپنی بیوی اور بھابی کی سمجھداری سے بہت خوش ہوا اور پھر وہ سب مل کر خوشی خوشی رہنے لگے

اس طرح علی بابا پوری غار کا مالک بن گیا پھر وہ سونے سے لوگوں کی تمام پریشانیاں ختم کرنے لگا اور تمام غریبوں کی مدد کرنے لگا اس طرح علی بابا نے بڑی بہادری سے چوروں کا خاتمہ کردیا جو لوگوں پر ظلم کرتے تھے

Post a Comment

Previous Post Next Post